Saturday 31 August 2013

THE STORY OF PAKISTAN


Friday 30 August 2013

Pakistan Air Force in year 2015


Pakistan Air Force Pilots of 1965 War - پاک فضائیہ


President Ayub's Historical Address To The Nation 6 September 1965


What Happened When Pakistan President Went to USA


Wednesday 28 August 2013

لاہور کا جغرافيہ

لاہور کا جغرافيہ

تمہيد

تمہيد کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دريافت ہوئے
اب بہت عرصہ گزرچکا ہے، اس ليے دلائل و براہين سے اس کے وجودکو
ثابت کرنے کی ضرورت نہيں۔ يہ کہنے کی اب ضرور نہيں کہ کُرے کو
دائيں سے بائيں گهمائيے۔ حتیٰ کہ ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آکر ٹهہر
جائے پهر فلاں طول البلد اور فلاں عرض البلد کے مقام انقطاع پر لاہور کا نام
تلاش کيجيئے۔ جہاں يہ نام کُرے پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے ۔
اس ساری تحقيقات کو مختصر مگر جامع الفاظ ميں بزرگ يوں بيان کرتے ہيں
کہ لاہور، لاہور ہی ہے، اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہيں مل سکتا، تو آپ
کی تعليم ناقص اور آپ کی دہانت فاتر ہے۔
محل وقوع
ايک دو غلط فہمياں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب ميں واقع
ہے۔ ليکن پنجاب اب پنج آب نہيں رہا۔ اس پانچ درياؤں کی سرزمين ميں اب
صرف چار دريا بہتے ہيں۔ اور جو نصف دريا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل
بهی نہيں رہا۔ اسی کو اصطلاح ميں راوی ضعيف کہتے ہيں۔ ملنے کا پتہ يہ
ہےکہ شہر کے قريب دو پل بنے ہيں۔ ان کے نيچے ريت ميں دريا ليٹا رہت ا
ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس ليے يہ بتانا بهی مشکل ہے کہ
شہر دريا کے دائيں کنارے پر واقع ہے يا بائيں کنارے پر۔ لاہور تک پہنچنے
کے کئی رستے ہيں۔ ليکن دو ان ميں سے بہت مشہور ہيں۔ ايک پشاور سے آت ا
ہے اور دوسرا دہلی سے۔ وسط ايشيا کے حملہ آور پشاور کے راستے اور
يو۔پی کے رستے وارد ہوتے ہيں۔ اول الذکر اہل سيف کہلاتے ہيں اور غزنوی
يا غوری تخلص کرتے ہيں مؤخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہيں۔ يہ بهی تخلص
کرتے ہيں، اور اس ميں يدطولیٰ رکهتے ہيں۔

حدوداربعہ

کہتے ہيں، کسی زمانے ميں لاہور کا حدوداربعہ بهی ہوا کرتا تها، ليکن طلباء
کی سہولت کے ليے ميونسپلٹی نے اس کو منسوخ کرديا ہے۔ اب لاہور کے
چاروں طرف بهی لاہور ہی واقعہ ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہورہا ہے ۔
ماہرين کا اندازہ ہے، کہ دس بيس سال کے اندر لاہور ايک صوبے کا نام ہوگا ۔
جس کادارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ يوں سمجهئے کہ لاہور ايک جسم ہے، جس کے
ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے، ليکن ہر ورم مواد فاسد سے بهرا ہے ۔
گويا يہ توسيع ايک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

آب وہوا

لاہور کی آب وہوا کے متعلق طرح طرح کی روايات مشہور ہيں، جو تقريب اً
سب کی سب غلط ہيں، حقيقت يہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی ميں يہ
خواش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہميں بهی آب و ہوا دی جائے،
ميونسپلٹی بڑی بحث وتمحيص کے بعد اس نتيجہ پر پہنچی کہ اس ترقی کے
دور ميں جبکہ دنيا ميں کئی ممالک کو ہوم رول مل رہا ہے اور لوگوں ميں
بيداری کے آثار پيدا ہو رہے ہيں، اہل لاہور کی يہ خواش ناجائز نہيں۔ بلکہ
ہمدردانہ غوروخوض کی مستحق ہے۔
ليکن بدقسمتی سے کميٹی کے پاس ہوا کی قلت تهی، اس ليے لوگوں کو ہدايت
کی گئی کہ مفاد عامہ کے پيش نظر اہل شہر ہوا کا بيجا استعمال نہ کريں،
بلکہ جہاں تک ہوسکے کفايت شعاری سے کام ليں۔ چنانچہ اب لاہور ميں عام
ضروريات کے ليے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات ميں دهواں
استعمال کيا جاتا ہے۔ کميٹی نے جابجا دهوئيں اور گرد کے مہيا کرنے ليے
مرکز کهول ديئے ہيں۔ جہاں يہ مرکبات مفت تقسيم کئے جاتے ہيں۔ اميد کی
جاتی ہے، کہ اس سے نہايت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔
بہم رسائی آب کے ليے ايک اسکيم عرصے سے کميٹی کے زيرغور ہے۔ يہ
اسکيم نظام سقے کے وقت سے چلی آتی ہےليکن مصيبت يہ ہے کہ نظام
سقے کے اپنےہاته کے لکهئے ہوئے اہم مسودات بعض تو تلف ہوچکے ہيں
اور جو باقی ہيں ان کے پڑهنے ميں بہت دقت پيش آرہی ہے اس ليے ممکن
ہے تحقيق وتدقيق ميں چند سال اور لگ جائيں، عارضی طور پر پانی کا يہ
انتظام کيا گيا ہے کہ فی الحال بارش کے پانی کو حتی الوسع شہر سے باہر
نکلنے نہيں ديتے۔ اس ميں کميٹی کو بہت کاميابی حاصل ہوئی ہے۔ اميد کی
جاتی ہے کہ تهوڑے ہی عرصے ميں ہر محلے کا اپنا ايک دريا ہوگا جس ميں
رفتہ رفتہ مچهلياں پيدا ہوں گی اور ہر مچهلی کے پيٹ ميں کميٹی کی ايک
انگوٹهی ہوگی جو رائے دہندگی کے موقع پر ہر رائے دہندہ پہن کر آئے گا۔
نظام سقے کے مسودات سے اس قدر ضرور ثابت ہوا ہے کہ پانی پہنچانے
کے ليے نل ضروری ہيں چنانچہ کميٹی نے کروڑوں روپے خرچ کرکے
جابجا نل لگوا دی ئے ہيں۔ فی الحال ان ميں ہائيڈروجن اور آکيسجن بهری ہے ۔
ليکن ماہرين کی رائے ہے کہ ايک نہ ايک دن يہ گيسيں ضرور مل کر پانی
بن جائيں گی۔ چنانچہ بعض بعض نلوں ميں اب بهی چند قطرے روزآنہ ٹپکتے
ہيں۔ اہل شہر کو ہدايت کی گئی ہے، کہ اپنے اپنے گهڑے نلوں کے نيچے رکه
چهوڑيں تاکہ عين وقت پر تاخير کی وجہ سے کسی کو دل شکنی نہ ہو، شہر
کے لوگ اس پر بہت خوشياں منا رہے ہيں۔

ذرائع آمدورفت

جو سياح لاہور تشريف لانے کا ارادہ رکهے ہوں، ان کو يہاں کے ذرائع
آمدورفت کے متعلق چند ضروری باتيں ذہن نشين کرلينی چاہئيں۔ تاکہ وہ يہاں
کی سياحت سے کماحقہ اثرپذير ہوسکيں۔ جو سڑک بل کهاتی ہوئی لاہور کے
بازاروں ميں سے گزرتی ہے، تاريخی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ يہ وہی سڑک
ہے جسے شيرشاہ سوری نے بنايا تها۔ يہ آثار قديمہ ميں شمار ہوتی ہے اور
بےحد احترام کی نظروں سے ديکهی جاتی ہے۔ چنانچہ اس ميں کسی قسم ک ا
ردوبدل گوارا نہيں کيا جاتا۔ وہ قديم تاريخی گهڑے اور خندقيں جوں کی توں
موجود ہيں۔ جنہں نے کئی سلطنتوں کے تختے اُلٹ د يئے تهے۔ آج کل بهی
کئی لوگوں کے تختے يہاں اُلٹتے ہيں۔ اور عظمت رفتہ کی ياد دلا کر انسان
کو عبرت سکهاتے ہيں۔
بعض لوگ ز يادہ عبرت پکڑنے کے ليے ان تختوں کے نيچے کہيں کہيں دو
ايک پہيے لگا ليتے ہيں۔ اور سامنے دو ہک لگا کر ان ميں ايک گهوڑا ٹانگ د
يتے ہيں۔ اصطلاح ميں اس کو تانگہ کہتے ہيں۔ شوقين لوگ اس تختہ پر موم
جامہ منڈه ليتے ہيں تاکہ پهسلنے ميں سہولت ہو اور بہت زيادہ عبرت پکڑی
جائے۔
اصلی اور خالص گهوڑے لاہور ميں خوراک کے کام آتے ہيں۔ قصابوں کی
دوکانوں پر ان ہی کا گوشت بکتا ہے۔ اور زين کس کو کهايا جاتا ہے۔ تانگوں
ميں ان کی بجائے بناسپتی گهوڑے استعمال کئے جاتے ہيں۔ بناپستی گهوڑ ا
شکل وصورت ميں دم دار تارے سے ملتاہے۔ کيونکہ اس گهوڑے کی ساخت
ميں دم زيادہ اور گهوڑا کم پايا جاتا ہے، حرکت کرتے وقت اپنی دم کو دبا ليت ا
ہے۔ اور اس ضبط نقش سے اپنی رفتار ميں ايک سنجيدہ اعتدال پيدا کرتاہے ۔
تاکہ سڑک کا ہر تاريخی گڑها اور تانگے کا ہر ہچکولا اپنا نقش آپ پر ثبت
کرتا جائے اور آپ کا ہر ايک مسام لطف اندوز ہوسکے۔

قابل ديد مقامات

لاہور ميں قابل دير مقامات مشکل سے ملتے ہيں۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ لاہور
ميں ہر عمارت کی بيرونی ديواريں دہری بنائی جاتی ہيں۔ پہلے اينٹوں اور
چونے سے ديوار کهڑی کرتے ہيں اور پهر اس پر اشتہاروں کا پلستر کردي ا
جاتا ہے، جو دبازت ميں رفتہ رفتہ بڑهتا جاتا ہے۔ شروع شروع ميں چهوٹے
سائز کے مبہم اور غيرمعروف اشتہارات چپکائے جاتے ہيں۔ مثلاً "اہل لاہور
کو مژدہ" "اچها اور سستا مال" اس کے بعد ان اشتہاروں کی باری آتی ہے،
جن کے مخاطب اہل علم اور سخن فہم لوگ ہوتے ہيں مثلاً "گريجويٹ درزی
ہاؤس" يا "اسٹوڈنٹوں کے ليے نادر موقع"، يا "کہتی ہے ہم کو خلق خد ا
غائبانہ کيا۔" رفتہ رفتہ گهر کی چار ديواری ايک مکمل ڈائرکٹری کی صورت
اختيار کرليتی ہے۔ دروازے کے اوپر بوٹ پالش کا اشتہار ہے۔ دائيں طرف
تازہ مکهن ملنے کا پتہ درج ہے۔ بائيں طرف حافظ کی گوليوں کا بيان ہے۔ اس
کهڑکی کے اوپر انجمن خدام ملت کے جلسے کا پروگرام چسپاں ہے۔ اُس
کهڑکی پر کسی مشہور ليڈر کے خانگی حالت بالوضاحت بيان کرديئے ہيں
دروازے پر مس نغمہ جان کی تصوير اور ان کی فلم کے محاسن گنوا رکهے
ہيں۔ يہ اشتہارات بڑی سرعت سے بدلتے رہتے ہيں اور ہر نيا مژدہ اور ہر
نئی دريافت يا ايجاد يا انقلاب عظيم کی ابتلا چشمی زدن ميں ہر ساکن چيز پر
ليپ دی جاتی ہے۔ اس ليے عمارتوں کی ظاہری صورت ہر لمحہ بدلتی رہتی
ہے اور ان کے پہنچانے ميں خود شہر کے لوگوں کوبہت دقت پيش آتی ہے۔
ليکن جب سے لاہور ميں دستور رائج ہوا ہے کہ بعض اشتہاری کلمات پختہ
سياہی سے خود ديوار پر نقش کرديئے جاتے ہيں۔ يہ وقت بہت حد تک رفع
ہوگئی ہے، ان دائمی اشتہاروں کی بدولت اب يہ خدشہ نہيں رہا کہ کوئی
شخص اپنا يا اپنے کسی دوست کا مکان صرف اس ليے بهول جائے کہ پچهلی
مرتبہ وہاں چارپائيوں کا اشتہار لگا ہوا تها اور لوٹتے تک وہاں اہاليان لاہور
کو تازہ اور سستے جوتوں کا مژدہ سنايا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب وثوق سے کہ ا
جاسکتا ہےکہ جہاں بحروف جلی "محمد علی دندان ساز" لکها ہے وہ اخبار
انقلاب کا دفتر ہے۔ جہاں "بجلی پانی بهاپ کا بڑا ہسپتال" لکها ہے، وہاں ڈاکٹر
اقبال رہتے ہيں۔ "خالص گهی کی مٹهائی" امتياز علی تاج کا مکان ہے۔ "کرشن ا
بيوٹی کريم" شالامار باغ کو، اور "کہانسی کا مجرب نسخہ" جہانگير کے
مقبرے کو جاتا ہے۔

صنعت وحرفت

اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سےبڑی صنعت رسالہ بازی اور سب سے
بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔ ہر رسالے کا ہر نمبر عموماً خاص نمبر ہوت ا
ہے۔ اور عام نمبر صرف خاص خاص موقعوں پر شائع کئے جاتے ہيں۔ عام
نمبر ميں صرف ايڈيٹر کی تصوير اور خاص نمبروں ميں مس سلوچنا اور
مس کجن کی تصاوير بهی دی جاتی ہے۔ اس سے ادب کو بہت فروغ نصيب
ہوتا ہے اور فن تنقيد ترقی کرتا ہے۔
لاہور کے ہر مربع انچ ميں ايک انجمن موجود ہے۔ پريذيڈنٹ البتہ تهوڑے ہيں
اس ليے فی الحال صرف دو تين اصحاب ہی يہ اہم فرض ادا کر رہے ہيں
چونکہ انجمنوں کے اغراض ومقاصد مختلف ہيں اس ليے بسااوقات ايک ہی
صدر صبح کسی مذہبی کانفرنس کا افتتاح کرتا ہے۔ سہ پہر کو کسی سينما کی
انجمن ميں مس نغمہ جان کا تعارف کراتا ہے اور شام کو کسی کرکٹ ٹيم کے
ڈنر ميں شامل ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مطمح نظروسيع رہتا ہے۔ تقرير عام
طور پر ايسی ہوتی ہے جو تينوں موقعوں پر کام آسکتی ہے۔ چنانچہ سامعين
کو بہت سہولت رہتی ہے۔

پيداوار

لاہور کی سب سے مشہور پيداوار يہاں کے طلباء ہيں جو بہت کثرت سے
پائے جاتے ہيں اور ہزاروں کی تعداد ميں دساور کو بهيجے جاتے ہيں۔ فصل
شروع سرما ميں بوئی جاتی ہے۔ اور عموماً اواخر بہار ميں پک کر تيار ہوتی
ہے۔
طلباء کی کئی قسميں ہيں جن ميں سے چند مشہور ہيں، قسم اولی جمالی
کہلاتی ہے، يہ طلباء عام طور پرپہلے درزيوں کے ہاں تيار ہوتے ہيں بعد
ازاں دهوبی اور پهر نائی کے پاس بهيجے جاتے ہيں۔ اور اس عمل کے بعد
کسی ريستوران ميں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی
سينما يا سينما کے گردونواح ميں:
رخ روشن کے آگے شمع رکه کر وہ يہ کہتے ہيں
ادهر جاتا ہے ديکهيں يا اُدهر پروانہ آتا ہے
شمعيں کئی ہوتی ہيں، ليکن سب کی تصاوير ايک البم ميں جمع کرکے اپنے
رکه چهوڑتے ہيں، اور تعطيلات ميں ايک ايک کو خط لکهتے رہتے ہيں ۔
دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجرہ جلال الدين اکبر سے ملتا ہے،
اس ليے ہندوستان کا تخت وتاج ان کی ملکيت سمجها جاتا ہے۔ شام کے وقت
چند مصاحبوں کو ساته ليے نکلتے ہيں اور جودوسخا کے خم لنڈهاتے پهرتے
ہيں۔ کالج کی خوارک انہيں راس نہيں آتی اس ليے ہوسٹل ميں فروکش نہيں
ہوتے۔ تيسری قسم خيالی طلباء کی ہے۔ يہ اکثر روپ اور اخلاق اور اداگون
اور جمہوريت پر باآواز بلند تبادلہ خيالات کرتے پائے جاتے ہيں اور آفرينش
اور نفسيات جنسی کے متعلق نئے نئے نظريئے پيش کرتے رہتے ہيں، صحت
جسمانی کو ارتقائے انسانی کے ليے ضروری سمجهتے ہيں۔ اس ليے علی
البصح پانچ چه ڈنٹر پيلتے ہيں، اور شام کو ہاسٹل کی چهت پر گہرح سانس
ليتے ہيں، گاتے ضرور ہيں، ليکن اکثر بےسرے ہوتے ہيں۔ چهوتهی قسم خالی
طلباء کی ہے۔ يہ طلباء کی خالص ترين قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی
آلائش سے تر ہونے نہيں پاتا۔ کتابيں، امتحانات، مطالعہ اور اس قسم کے
خرخشے کبهی ان کی زندگی ميں خلل انداز نہيں ہوتے۔ جس معصوميت کو
ساته لے کر کالج ميں پہنچتے تهے، اسے آخر تک ملوث ہونے نہيں ديتے
اورتعليم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں ميں اس طرح زندگی بسر کرتے
ہيں جس طرح بتيس دانتوں ميں زبان رہتی ہے۔
پچهلے چند سالوں سے طلباء کی ايک اور قسم بهی دکهائی دينے لگی ہے،
ليکن ان کو اچهی طرح سے ديکهنے کےليے محدب شيشے کا استعمال
ضروری ہے، يہ وہ لوگ ہيں جنہيں ريل کا ٹکٹ نصف قيمت پر ملتا ہے اور
اگر چاہيں تو اپنی انا کے ساته زنانے ڈبے ميں بهی سفر کرسکتے ہيں۔ ان کی
وجہ سے اب يونيورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کر دی ہے کہ آئندہ صرف
وہی لوگ پروفيسر مقرر کئے جائيں جو دوده پلانے والے جانوروں ميں سے
ہوں۔

طلبی حالات

لاہور کے لوگ بہت خوش طبع ہيں۔

پیغام

!Understand If You Can پیغام آج کل کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ عمارت جس میں ، میں رہا کرتا تھا کمزور ہو رہی ہے . البتہ میں نے اس میں واپس جانا ہے کیونکہ میں اسی میں پیدا ہوا . اصل میں وہ میرا گھر ہے . مجھے آج ہزاروں میل دور سے اس کی دیواریں چٹخنے کی آوازیں آ رہی ہیں. دیواروں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں . اس گھر کے رہنے والوں نے اس کا خیال نہیں رکھا .کچھ گھر والے ہتھوڑوں سے اس پر ضربیں لگا رہے ہیں . کوئی گھر کی ابتر حالت سے بے خبر اپنی موج میں مست ہے تو کوئی اس قبل ہی نہیں . گھر کا مالک بھی بے پروا ہے .آخر اس گرتے گھر کی کون خبر گیری کرے گا . کون اس کی مرمت کرے اور دیکھ بھال کرے ایک کہتا ہے کے حالت بہت خراب ہے اور ایک کہتا ہے کے کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہے . تمہیں تو ویسے ہی وہم ہو گیا ہے .
لیکن ان کی اس بحث میں وقت نکلتا جا رہا ہے اور عمارت بری سے بدتر ہو رہی ہے . کیا یہ میرے گھر والے اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب عمارت زمین بوس ہو جائے گی . .. اور ہمارا گھر خدا نا خواستہ گھر نہ رہے گا . ملبے کا ڈھیر رہ جائے گا . تب دوسرے لوگ آ کر وہاں قبضہ کر لیں گے اور ہم در بدر کی ٹھوکریں کھائیں گے .
براہ مہربانی میرے گھر والوں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیجئے . میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا .
لیکن ان کی اس بحث میں وقت نکلتا جا رہا ہے اور عمارت بری سے بدتر ہو رہی ہے . کیا یہ میرے گھر والے اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب عمارت زمین بوس ہو جائے گی . .. اور ہمارا گھر خدا نا خواستہ گھر نہ رہے گا . ملبے کا ڈھیر رہ جائے گا . تب دوسرے لوگ آ کر وہاں قبضہ کر لیں گے اور ہم در بدر کی ٹھوکریں کھائیں گے . براہ مہربانی میرے گھر والوں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیجئے . میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا .لیکن ان کی اس بحث میں وقت نکلتا جا رہا ہے اور عمارت بری سے بدتر ہو رہی ہے . کیا یہ میرے گھر والے اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب عمارت زمین بوس ہو جائے گی . .. اور ہمارا گھر خدا نا خواستہ گھر نہ رہے گا . ملبے کا ڈھیر رہ جائے گا . تب دوسرے لوگ آ کر وہاں قبضہ کر لیں گے اور ہم در بدر کی ٹھوکریں کھائیں گے . 

براہ مہربانی میرے گھر والوں تک میرا یہ پیغام پہنچا دیجئے . میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا .

Tuesday 27 August 2013

ISLAMABAD

Islamabad is the capital city of Pakistan. Located within the Islamabad Capital Territory , the population of the city has grown from 100,000 in 1951 to 1.15 million as of 2011, making it the ninth largest city in the country. Together with its sister city of Rawalpindi, the greater Islamabad-Rawalpindi metropolitan area is the third largest conurbation in Pakistan with a population of over 4.5 million inhabitants.Since its foundation, Islamabad has attracted people from all over Pakistan, making it one of the most cosmopolitan and urbanized cities of Pakistan. As the capital, Islamabad is the seat of the Government of Pakistan; the Presidential Palace (Aiwan-e-Sadr) is also located here. Islamabad is home to the Pakistan Monument, which is one of the two national monuments of Pakistan. Islamabad is known as clean, calm and green city. It hosts a large number of diplomats, politicians and government employees.
Islamabad is a modern, well planned and maintained city located  in the northeastern part of the country, within the Islamabad Capital Territory.  The city was built during the 1960s to replace Karachi as Pakistan's capital. Islamabad is a well-organised international city divided into several different sectors and zones. It is regarded as the most developed city in Pakistan and is ranked as a Gamma- world city. The city is home to the Faisal Mosque, the largest mosque in South Asia and the fourth largest mosque in the world.
Islamabad has the highest literacy rate in Pakistan. There are 16 recognised universities in Islamabad, including some of the top-ranked universities in Pakistan: Quaid-i-Azam UniversityPakistan Institute of Engineering & Applied Sciences, and National University of Sciences and TechnologyAllama Iqbal Open University in Islamabad is one of the world's largest universities by enrolment






















Saturday 24 August 2013

Karachi the Magnificent


Karachi

is the largest and most populous metropolitan city of Pakistan and its main seaport and financial centre, as well as the capital of Sindh province. The city has an estimated population of 23.5 million people as of April 2013, and a density of nearly 6,000 people per square kilometre (15,500 per square mile). Karachi is the 3rd-largest city in the world by population within city limits.It is Pakistan's centre of banking, industry, economic activity and trade and is home to Pakistan's largest corporations, including those involved in textiles, shipping, automotive industryentertainmentthe arts, fashion, advertising, publishingsoftware development and medical research. The city is a hub of higher education in South Asia and the Muslim world.
 It was the capital of Pakistan until Islamabad was constructed as a capital in order to spread development evenly across the country and to prevent it from being concentrated in Karachi. Karachi is the location of the Port of Karachi and Port Bin Qasim, two of the region's largest and busiest ports. After the independence of Pakistan, the city population increased dramatically when hundreds of thousands of Muhajirs from India and other parts of South Asia came to settle in Karachi.
The city is located in the south of the country, along the coastline meeting the Arabian Sea. It is spread over 3,527 km2 (1,362 sq mi) in area. It is known as the "City of Lights" (روشنیوںکا شہر) and "The Bride of the Cities" (عروس البلاد) for its liveliness, and the "City of the Quaid" (شہرِ قائد), having been the birth and burial place of Quaid-e-Azam, the Great Leader, (Muhammad Ali Jinnah), the founder of Pakistan, who made the city his home after Pakistan's independence from the British Raj on 14 August 1947.



















Friday 23 August 2013

Swat Valley Pakistan

 is a valley and an administrative district in the Khyber Pakhtunkhwa near the Pakistan-Afghanistan border. It is the upper valley of the Swat River, which rises in the Hindu Kush range. The capital of Swat is Saidu Sharif, but the main town in the Swat valley is Mingora.
Swat has been inhabited for over two thousand years. The first occupants created well-planned towns. In 327 BC, Alexander the Great fought his way to Udegram and Barikot and stormed their battlements. In Greek accounts, these towns have been identified as Ora and Bazira, respectively. Around the 2nd century BC, the area was occupied byBuddhists, who were attracted by the peace and serenity of the land. There are many remains that testify to their skills as sculptors and architects.